حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قرآن کریم کی حافظہ محترمہ فاطمہ غلامی نے مازندران میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کو انٹرویو میں اپنے متعلق بتاتے ہوئے کہا : میں مدرسہ علمیہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا میں پایہ 4 کی طالبعلم ہوں اور تہران یونیورسٹی سے ایم-فل کر رہی ہوں اور مرکز خدمات حوزہ علمیہ کے توسط سے منعقدہ چوتھے بین الاقوامی قرآنی فیسٹیول کے حفظِ کل قرآن کریم کے شعبہ میں تیسری پوزیشن حاصل کر رکھی ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: پہلی مرتبہ مشہد مقدس میں حضوری طور پر آیت اللہ علم الہدی اور ریاستی حکام کی موجودگی میں منتخب ممتاز افراد کے اعزاز میں پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس فیسٹیول کے لیے 22ہزار افراد نے رجسٹریشن کروائی اور ان میں سے 22 افراد کوانعامات اور لوحِ تقدیر کے ساتھ آخری مرحلے کے لئے منتخب کیا گیا۔
محترمہ فاطمہ غلامی نے کہا: میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ ہمارے باقاعدہ گھریلو پروگراموں میں سے ایک قرآنی محافل کا انعقاد تھا۔ میری 2 سال کی عمر میں ہی میرے والدین اس طرف متوجہ ہوئے کہ میں نے ان مجالس میں پڑھی جانے والی دعای فرج کو مکمل طور پر حفظ اور قرائت کیا ہے تو اس کے بعد انہوں نے قرآن کے چھوٹے سوروں کو مجھے پڑھانا شروع کر دیا۔ خدا کے فضل و کرم، خاندان کی حمایت اور برجستہ اساتید کی کلاس میں شرکت سے میں نے 8 سال کی عمر میں قرآن کریم کو حفظ کر لیا۔
انہوں نے کہا: ہمیں قرآن کو اپنی زندگی میں نافذ اور قرآن کے نکات اور تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک اہم نکتہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں اخلاقی نکات کا خیال رکھنا ہے جیسے والدین کا احترام، اساتذہ کا احترام اور انسانوں کا احترام، زندگی میں حیا کا خیال اور دوسروں کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آنا وغیرہ۔ میرا یقین ہے کہ اگر قرآنی نکات کو معاشرے میں نافذ کیا جائے تو اس سے ثقافت کی سطح اور انسانوں کا معیار زندگی بلند ہو گا۔
انہوں نے کہا: حوزاتِ علمیہ میں قرآنی رنگ و بو میں اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ درحقیقت انسان کے اخلاقی پروگراموں میں تاثیر رکھتا ہے اور انسان کی تعمیر کرتا ہے۔
قرآن کریم کی حافظہ اس خاتون نے مزید کہا: حفظ قرآن کی برکتوں میں سے ایک زندگی اور وقت میں برکت ہے اور حفظ قرآن انسان کی یادداشت اور حافظہ کو مضبوط کرتا ہے۔ قرآن کو مہجوریت سے نجات دینے والے راستوں میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور قرآن سے انس و محبت اس پر عمل کرنے کے لیے ایک بنیادی ضرورت کے طور پر ہے یعنی انسان کو قرآن کا ہمنشین اور ساتھی بننا چاہیے اور اس پر عمل کرنے کے قابل ہونے کے لیے اسے اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے۔